ہفتہ وار زرعی خبریں 2018
نومبر 1 تا 7 نومبر، 2018
گندم
پنجاب کی آٹا ملوں نے گندم برآمدکرنے کی مخالفت کرتے ہوئے گندم سے تیار شدہ اشیاء برآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ حبیب الرحمن لغاری کی قیادت میں ہونے والے پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن، پنجاب کے اجلاس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ گندم برآمد کرنے کے بجائے آٹا اور گندم سے تیار شدہ دیگر اشیاء کی زمینی اور سمندری راستوں سے برآمد کی اجازت دی جائے۔ اس پالیسی سے ناصرف بند پڑی مقامی آٹا ملیں فعال ہونگی اور ہزاروں افراد کو روزگار ملے گا بلکہ ملک کو مزید زرمبادلہ بھی حاصل ہوگا۔
(ڈان، 1 نومبر، صفحہ2)
محکمہ زراعت پنجاب نے بارانی علاقے کے کسانوں کو گندم کی زیادہ سے زیادہ پیداوار کے حصول کے لیے منظور شدہ بیج کاشت کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ محکمے نے کسانوں پر زور دیا ہے کہ 15 نومبر تک بیجائی مکمل کرلیں اور منظور شدہ بیج نارک 2009،BARS 2009 ، دھرابی 2011، پاکستان 2013، فتح جنگ 2016، احسان 2016، بارانی 2017، اور چکوال 50 کاشت کریں۔ محکمہ کے ترجمان نے مزید تجویز دی ہے کسان ایک ایکڑ زمین پر 40 سے 50 کلوگرام بیج استعمال کریں۔
(بزنس ریکارڈر، 2 نومبر، صفحہ 16)
ایوان زراعت سندھ (سندھ چیمبر آف ایگری کلچر) نے صوبے میں ربیع کے موسم میں پانی کی عدم دستیابی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے گندم کی 50 فیصد بوائی متاثر ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ جنرل سیکریٹری زاہد بھرگڑی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں کسانوں سے زرعی قرضوں کی وصولی معطل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ زاہد بھرگڑی کا مزید کہنا تھا کہ روہڑی اور نارا کنال میں 50 فیصد پانی کم ہے اور یہ دونوں کنال ہی زیادہ تر گندم کے زیر کاشت رقبے کو سیراب کرتی ہیں۔
(ڈان، 5 نومبر، صفحہ17)
چاول
وزارت تجارت کے حکام نے کہا ہے کہ چاول کو خصوصی مراعات حاصل کرنے والے شعبہ جات کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے تجویز تیار کرلی گئی ہے تاکہ اس کی برآمد میں اضافہ کرکے زرمبادلہ حاصل کی جاسکے۔ وزارت یہ تجویز اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اگلے اجلاس میں پیش کرے گی۔ اس وقت پانچ شعبہ جات برآمدات میں اضافے کے لیے سیلز ٹیکس، بجلی اور گیس کی بندش سے استثنی اور بجلی کے نرخو ں میں رعایت حاصل کررہے ہیں۔ حال ہی میں رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے حال ہی میں وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت سے ملاقات میں چاول کو اہم برآمدی شعبہ جات کی فہرست میں شامل کرنے ہر زور دیا تھا۔
(ڈان، 1نومبر ،صفحہ10)
غذائی کمی
تھرپارکر کے خشک سالی سے متاثرہ علاقے مٹھی، کالوئی اور نگرپارکر میں غذائی کمی اور پانی سے ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے مزید نو بچے جانبحق ہوگئے ہیں جس کے بعد اس سال مرنے والے بچوں کی تعداد 544 تک پہنچ گئی ہیں۔ محکمہ صحت کے عہدیداروں نے حکومتی موقف دہراتے ہوئے کہا ہے کہ مرنے والے زیادہ تر بچے وزن میں کمی کا شکار تھے جس کی وجہ کم عمری کی شادیاں ہیں۔ مرنے والے بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کے گاؤں میں علاج کی سہولت میسر نہیں جس کی وجہ سے انھیں میلوں دور سفر کرکے مٹھی آنا پڑتاہے۔
(ڈان، 5 نومبر، صفحہ17)
خشک سالی
بلوچستان اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے وفاق سے مطالبہ کیا ہے کہ خشک سالی سے متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دیا جائے اور بلوچستان میں خشک سالی سے بری طرح متاثر ہونے والے کسانوں کے لیے فوری طورپر امدادکا اعلان کیا جائے۔ قرارداد بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے ثناء ﷲبلوچ نے پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی اداروں کے مطابق بلوچستان کو طویل عرصے سے خشک سالی جیسے حالات کا سامنا ہے۔ ان حالات میں بلوچستان کو آفت زدہ قرار دینا چاہیے اور وفاق کی جانب سے کسانوں کے لیے امدادی پیکچ کا اعلان کیا جانا چاہیے۔
(ڈان، 6 نومبر، صفحہ5)
گنا
سندھ ہائی کورٹ نے واجبات کی عدم ادائیگی سے متعلق گنے کے کاشتکاروں کی تقریباً 1,300 درخواستوں کا جائزہ لینے کے لئے سات رکنی کمیٹی تشکیل دیدی ہے۔ کمیٹی کے سربراہ گنا کمشنر ہونگے اور دونوں فریقین کے تین تین نمائندے اس کمیٹی میں شامل ہونگے۔ شوگر ملیں اپنے تینوں نمائندے اگلے تین دنوں میں مقرر کریں گی۔ یہ کمیٹی ان درخواستوں کی انفرادی طور پر جانچ کرے گی اور درخواست گزار یا اس کے وکیل کو درخواست میں کیے گئے دعوے کی تصدیق کرے گی۔ درخواست گزار کو لازمی طور پر کمیٹی کے سامنے اپنے دعوے سے متعلق دستاویزات پیش کرنے ہونگے۔ عدالت نے کمیٹی کو لازمی طور پر 45 دنوں میں کام مکمل کرنے اور سیکریٹری محکمہ زراعت کو اس کی رپورٹ عدالت میں جمع کروانے کی ہدایت کی ہے۔
(ڈان، 1 نومبر، صفحہ15)
ایک خبر کے مطابق گنے کی کرشنگ 15 نومبرسے شروع ہوگی جبکہ حکومت نے گنے کی قیمت 180 روپے فی من مقرر کی ہے۔ حسیب وقاص شوگر مل پر گزشتہ سال کسانوں کے 100 ملین روپے واجب لادا تھے اور مل کو غیر قانونی طور پر ننکانہ صاحب سے تحصیل جتوئی، ضلع مظفر گڑھ منتقل کیا گیا تھا۔ بڑی تعداد میں عوام بشمول کسانوں نے احتجاج کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ گنے کا موسم قریب ہے اور حکومت نے بھاولپور اور رحیم یارخان اضلاع جانے والے پل بند کردیے ہیں۔
(ڈان، 5 نومبر، صفحہ6)
ماحول
ایک خبر کے مطابق معیاری اور صاف خورراک کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے پنجاب فوڈ اتھارٹی کھیتوں میں سبزیوں اور پھلوں کو کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رکھنے کے لیے چھڑکے جانے والے زہر یلے مواد کی لیبارٹری میں جانچ کرے گی۔ اتھارٹی کے ایڈشنل ڈائریکٹر جنرل محمد عثمان کا کہنا ہے کہ کئی کیڑے مار زہر فوری طور پر صاف نہیں ہوتے اور ان کی باقیات سبزیوں اور پھلوں میں رہ جاتی ہیں۔ اتھارٹی قوانین کے مطابق ان زہریلے اجزاء کے استعمال پر نظر رکھے گی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 1 نومبر، صفحہ11)
پنجاب فوڈ اتھارٹی نے لاہور میں 60 کنال زمین پر آلودہ پانی سے کاشت کی جانے والی سبزیوں کو ضائع کردیا۔ اتھارٹی کے عملے نے شاہدرہ ٹاؤن میں مولی، پالک ، گاجر، تربوز اور دھنیا سمیت مختلف فصلوں کو ضائع کردیا۔ ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی کے مطابق صوبے میں آلودہ پانی سے کاشت کی جانے والی سبزیوں ے خلاف کارروائی جاری رہے گی۔ کیمیائی اجزاء سے آلودہ پانی سے کاشت کی جانے والی سبزیاں ہیپاٹائٹس اور دیگر امراض کی وجہ ہیں۔
(ڈان، 5 نومبر، صفحہ2)
پانی
وزیر اعظم عمران خان نے وزارت قومی غذائی تحفظ وتحقیق کے 9 ملین ایکڑ فٹ پانی کو محفوظ کرنے کے تین بڑے منصوبوں کی منظوری دیدی ہے۔ ملک بھر میں آبی ذرائع (واٹر کورسز) کی مرمت (لائننگ)، کھیتوں میں لیزر کی مدد سے زمین ہموار کرکے اور خیبر پختونخواہ میں چھوٹے ڈیموں اور آبی ذخیروں کے رقبے میں 60 ہزار ایکڑ اضافے کے زریعے پانی کو محفوظ کیا جائے گا۔ واٹر کورسوں کو بہتر کرنے کا منصوبہ نیشنل پروگرام فار امپرومنٹ آف واٹر کورسز ان پاکستان فیز ٹوکا آغازکیا جائیگا اور اس منصوبے کے تحت 73,000 واٹر کورسز کی مرمت کا ہدف حاصل کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ حکومت تمام صوبوں خصوصاً سندھ کو زمین ہموار کرنے والے لیزر لیولر پر زرتلافی دے گی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 1 نومبر، صفحہ3)
زمین
ایک خبر کے مطابق پنجاب حکومت نے سیالکوٹ میں 26 زمینی ریکارڈ کے مراکز قائم کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ ایک اعلی عہیدار کے مطابق محکمہ ریونیو نے ان مرکز کی تعمیر کے لئے مناسب جگہوں کی تلاش شروع کر دی ہے۔ یہ مراکز زمین کی منتقلی اور ’فرد‘ کے فوری اجراء میں سہولت فراہم کرینگے۔
(ڈان، 5 نومبر، صفحہ6)
نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبروں کی ترتیب ہی ملک میں زرعی شعبہ میں حکومتی پالیسیوں کے تضادات کو واضح کررہی ہے۔ کہیں سرمایہ دار خود گندم کے بجائے اس سے بنی اشیاء کی برآمد کو ترجیح دینے کا مطالبہ کررہے ہیں اور کہیں بچے گندم اور دیگر غذائی اجناس نہ ہونے سے بھوک اور غذائی کمی کی وجہ سے دم توڑ رہے ہیں، خود حکومتی ادارے آلودہ پانی سے اگائی گئی فصلیں تباہ کررہے ہیں لیکن آبی وسائل کو آلودہ کرنے والے صنعتکاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی اور کہیں خود حکومت ایسے مخصوص بیجوں کو فروغ دے رہی ہے جو بغیر کیمیائی اجزاء، کھاد کے پیداوار نہیں دیتے۔ سرمایہ داری نظام کا خاصہ ہے کہ یہ بھوک اور غربت برقرار رکھتا ہے اور اس کے خاتمے کے لیے پیش کیے جانے والے حل بھی مزید منافع کے حصول کے لیے ہی پالیسی سازی کی صورت عوام پر مسلط کردیے جاتے ہیں۔ اس کی ایک عام مثال ملک میں گنے کی بڑھتی ہوئی پیداوار ہے جس میں گندم اور دیگر غذائی فصلوں کے مقابلے کئی گنا زیادہ پانی استعمال ہوتا ہے جبکہ صرف سندھ میں ہی پانی کی کمی کی وجہ سے گندم کی کاشت میں 50 فیصد کمی کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے ۔ ہر سال کی طرح سرمایہ دار بڑے پیمانے پر گنے سے چینی اور دیگر اشیاء تیار اور برآمد کرکے بھاری منافع حاصل کریں گے جبکہ گنا فروخت کرنے والے چھوٹے کسان گزشتہ سال فروخت کیے گئے گنے کی قیمت کے حصول کے لیے عدالتوں کے دھکے کھارہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب حکومتی نیولبرل پالیسیوں کے تحت منڈی کے لیے زراعت کرنے کے بجائے ملک کے چھوٹے اور بے زمین کسان خود پائیدار زراعت کے اصول اپناکر صاف خوراک اگائیں جو ناصرف پانی کی کمی، غربت اور غذائی کمی سے خاتمے میں مددگار ہوگی بلکہ کسانوں کے لیے خوراک کی خودمختاری کے حصول کا ذریعہ بھی ثابت ہوگا۔