خصوصی تحریر: گندم کا بحران

پاکستان بھر میں عوام گندم اور آٹے کی قیمت میں تیزی سے ہوتے اضافے سے پریشان ہیں اور اس کی مناسب یا سرکاری قیمت کو یقینی بنانے والے تمام تر ادارے چاہے و وفاقی ہوں یا صوبائی مہنگائی کے اس بے قابو ہوتے جن کو بوتل میں بند کرنے سے قاصر ہیں۔ ایک سال پہلے تک گندم کے وافر ذخائر سے پریشان وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس کی برآمد کے لیے جتن کررہی تھیں اور حکومت کی جانب سے بارہا اس کے لیے مراعات بھی فراہم کی گئیں۔ ملک میں گندم اور آٹے کے موجودہ بحران کی ذمہ دار چاہے حکومت ہو یا تاجر یا مل مالکان، یا توانائی اور دیگر مداخل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، حقیقتاً یہ بحران اس ملک کے غریب عوام سے روٹی کا نوالہ بھی چھین لینے کے مترادف ہے۔ زیر نظر تحریر گندم اور آٹے کے بحران کی وجوہات اور اس سے جڑے شراکتداروں کا کردار واضح کرنے کی ایک کوشش ہے۔ یقینا اس کے لیے گندم کی پیداوار، اس کی سرکاری قیمت، سرکاری خریداری اور پیداوار و کھپت سے متعلق پس منظر کو جاننا ضروری ہے۔

:گندم کی پیداوار اور ذخائر
سال 2018-2019 میں گندم کی پیداوار منڈی میں آنے سے پہلے حکومت کے پاس تقریباً 4.5 ملین ٹن گندم موجود تھا، یاد رہے اس مقدار میں حکومت کی ہنگامی یا دفاعی حکمت عملی کے تحت محفوظ کردہ ایک ملین ٹن گندم شامل نہیں ہے۔ حکومت کے ہی اعداد وشمار کے مطابق اس سال گندم کی پیداوار 25.1 ملین ٹن تھی۔ یوں اگر اس تمام مقدار کو جمع کیا جائے تو ملک میں 29.6 ملین ٹن گندم موجود تھی۔ جبکہ ملکی مجموعی گندم کی طلب سالانہ 25.84 ملین ٹن ہے۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملک میں 3.76 ملین ٹن ضرورت سے زائد گندم موجود تھی۔ اس تناظر میں پاکستان میں ضرورت سے زائد گندم ہونے کے باوجود ملک میں گندم اور آٹے کا بحران اور اس کی قیمت میں اضافے کے ممکنہ عوامل یہ ہوسکتے ہیں۔

: گندم کی سرکاری خریداری اور عالمی بینک
گندم کی سرکاری خریداری، اس کے سرکاری ذخائر اور اس کی بروقت ترسیل گندم و آٹے کی قیمت پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے جو بنیادی عوامی خوراک ہے۔ پاکستان ایگری کلچرل اسٹوریج اینڈ سروسس کارپوریشن اور خوراک کے صوبائی محکموں کے پیش کردہ اعداوشمار کے مطابق اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سال 2018-19 کے گندم کی خریداری کے مقرر کردہ ہدف 6.250 ملین ٹن کے مقابلے مجموعی طور پر 4.034 ملین ٹن گندم خریدا گیا جو مقررہ ہدف کے مقابلے 35 فیصد کم تھا۔ مسلم لیک ن کی گزشتہ حکومت نے گندم کی پیداوار اور اس کی منڈی پر سے سرکاری اختیار ختم کرنے کی ابتداء کی تھی جو موجودہ تحریک انصاف حکومت میں بھی جاری رہی۔ فروری 2018 میں زرعی منڈی میں اصلاحات کے لیے پنجاب حکومت نے عالمی بینک کے ساتھ ایک منصوبے کا آغاز کیا تھا جسے ”اسٹرینتھنگ مارکیٹ فار ایگری کلچر اینڈ رورل ٹرانسفورمیشن ان پنجاب“ یا اسمارٹ پروگرام بھی کہا جاتا تھا۔ اس منصوبے کے تحت پنجاب حکومت کو مرحلہ وار گندم کی سرکاری خریداری کم کرتے ہوئے اسے سال 2019 میں تین ملین ٹن تک محدود کرنا تھی اور 2021 میں گندم کی سرکاری خریداری سے مکمل طور پر الگ ہونا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ گندم کے سرکاری ذخائر کو دو ملین ٹن تک محدود کرنا تھا۔ اس منصوبے کے تحت ہی سال 2017-18 میں پنجاب حکومت نے گزشتہ سال کے ہدف 4.5 ملین ٹن کے برعکس صرف چار ملین ٹن گندم کی خریداری کا ہدف مقرر کیا۔
اسی طرح سال 2018-2019 کے لیے وزیر خوراک پنجاب سمیع اللہ چوہدری نے دعوی کیا کہ صوبائی حکومت 130 بلین روپے کی لاگت سے گندم خریدے گی اور اس مقصد کے لیے رقم کی منظوری دی جاچکی ہے۔ خیال رہے کہ پنجاب حکومت نے گندم خریداری پالیسی جاری کرتے ہوئے گندم کی خریداری کا ہدف واضح نہیں کیا، مئی میں وزیر ریونیو پنجاب ملک محمد انور نے ایک بیان میں آگاہ کیا کہ پنجاب حکومت چار ملین ٹن گندم خریدے گی۔ زرعی پیداوار میں بڑھوتری میں کمی اور کسانوں کے ردعمل پر حکومت نے عالمی بینک کے منصوبے کے برعکس تین کے بجائے چار ملین ٹن گندم خریدنے کا فیصلہ تو کیا لیکن پنجاب حکومت کی گندم کی سرکاری خریداری کے حوالے سے دلچسپی کا اندازہ وزیر خزانہ پنجاب مخدوم ہاشم جوان بخت کے فروری 2019 میں دیے گئے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ


پنجاب حکومت گزشہ دس سالوں میں کسانوں سے گندم کی خریداری، اسے ذخیرہ کرنے اور فروخت کرنے کے عمل میں 447 بلین روپے کی مقروض ہوئی ہے۔ غذائی اجناس کے اس سارے عمل سے زیادہ سے زیادہ ہر دس میں سے ایک کسان کو فائدہ پہنچتا ہے لیکن حکومت کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ گندم کی حکومتی خریداری سے کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ہم نجی شعبہ کے کردار میں اضافے پر یقین رکھتے ہیں اورحکومت کو ایک سہولت کار کے طور پر دیکھتے ہیں۔

اگر وزیر خزانہ پنجاب کا اوپر درج بیان حقیقت پر ہی مبنی تھا تو پھر حکومت نے اپنا فیصلہ کیوں تبدیل کیا؟ کیونکہ تحریک انصاف کی پنجاب حکومت نے کچھ دن پہلے ہی سرکاری سطح پر گندم کی خریداری میں کمی کا یہ منصوبہ پنجاب سمیت ملک بھر میں گندم و آٹے کے جاری بحران کے تناظر میں معطل کردیا ہے۔

: کسانوں سے گندم کی خریداری کی حوصلہ شکنی
حکومت کی طرف سے گندم کی سرکاری خریداری میں عدم دلچسپی کی وجہ پنجاب میں عالمی بینک کا منصوبہ ہو یا سندھ میں پہلے سے موجود آٹھ لاکھ ٹن گندم کا ذخیرہ، منڈی میں تاجر حکومتی خریداری میں عدم دلچسپی کا فائدہ اٹھاتے ہیں جس کے نتیجے میں گندم کی قیمت منڈی میں کم ہوجاتی ہے۔ اپریل 2019 کی ایک خبر کے مطابق سندھ میں گندم کی سرکاری خریداری نہ ہونے کی وجہ سے کسان اپنی پیداوار منڈی میں سستے داموں فروخت کرنے پر مجبور ہوئے اور صوبے میں کھلی منڈی میں اس کی قیمت 850 سے 900 روپے فی من تک کم ہوگئی۔

:گندم کی برآمد
پنجاب میں گندم کی سرکاری خریداری میں کمی، خریداری میں بدنظمی اور سندھ میں سرے سے صوبائی حکومت کا کسانوں سے گندم نہ خریدنے کی وجہ سے گندم کے خریدار تاجروں نے کسانوں کا استحصال تو کیا ہی دوسری طرف بڑے پیمانے پر کھلی منڈی سے سستے داموں خریدی گئی یہ گندم سندھ، پنجاب سے کے پی اور اس کے بعد افغانستان اسمگل ہوتی رہی ہے جس پر کئی بار حکومت کی توجہ دلانے پر بھی کوئی کارروائی عمل میں نہ لائی گئی۔ آٹھ مئی 2019کی ایک خبر کے مطابق حکومت کی جانب سے گندم کی بلامحصول برآمد کی اجازت دینے سے یومیہ ایک لاکھ گندم کی بوریاں افغانستان برآمد ہورہی تھیں۔ تیزی سے افغانستان گندم کی برآمد کی بظاہر وجہ وہاں کی منڈی میں اس کی پرکشش قیمت 1,584 روپے فی من تھی۔ مئی میں ہی سندھ سے پنجاب اور دیگر صوبوں کو گندم کی ترسیل روکنے کے لیے سندھ حکومت نے گندم کی دیگر صوبوں کو برآمد پر پابندی کا فیصلہ کیا۔ وزیر خوراک سندھ کے مطابق سندھ سے یومیہ 10,000 ٹن گندم پنجاب ترسیل کیا جارہا تھا جس کے بعد سندھ حکومت نے پابندی کا فیصلہ کیا۔ آخر کار وفاقی حکومت نے جولائی میں گندم کی برآمد پر پابندی عائد کردی۔ تاہم حکومت نے برآمد کنندگان سے مزاکرات کے بعد فائن آٹا، سوجی اور بیکریوں میں استعمال ہونے والے آٹے کی افغانستان برآمد پر سے پابندی اٹھالی۔ یہاں یہ بات قابل زکر ہے کہ حکومت نے جولائی میں گندم و آٹے کی قانونی برآمد پر پابندی عائد کی جبکہ غیرقانونی طور پر افغانستان گندم و آٹے کی ترسیل جاری رہی۔

:گندم کی پیداوار میں کمی
سرکاری سطح پر گندم کی خریداری میں کمی، اس کی اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ ملک میں گندم کی پیداوار میں کمی بھی ایک وجہ ہے۔ گزشتہ سال اپریل میں کہ جب فصل کٹائی کے لیے تیار ہوتی ہے بارشوں اور ژالہ باری سے گندم کی فصل کو شدید نقصان پہنچا، یقینا یہ بے موسم بارشیں موسمی بحران کا حصہ تھیں۔ اس وقت کے وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق صاحبزادہ محبوب سلطان کے مطابق بھاری بارشوں اور طوفان سے گندم کی پیداوار میں 1.28 ملین ٹن کمی ہوئی۔ حکومتی سطح پر فصل کی تباہی پر صرف بیانات کی حد تک تشویش کا اظہار کیا گیا اور نقصانات کا اندازہ لگانے کے لیے سروے کا آغاز کرنے کے صرف اعلانات کیے گئے لیکن اب تک اس حوالے سے کوئی ٹھوس اعداد وشمار حکومت کی جانب سے پیش نہیں کیے گئے کہ آیا بارشوں اور طوفان سے کتنے کسانوں اور ان کی پیدوار کو نقصان ہوا

:گندم مافیا
گزشتہ سال گندم کی کٹائی سے چند ماہ پہلے یعنی فروری میں حکومت نے 500,000 ٹن گندم برآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔ گندم کی برآمد کے لیے پاسکو کو 2,759 روپے فی ٹن کی بولی موصول ہوئی۔ اسی طرح سندھ کابینہ کے اجلاس میں صوبائی حکومت نے بھی کھلی فروخت کے ذریعے 500,000 ٹن گندم فروخت کرنے کا فیصلہ کیا اور اسی اجلاس میں کابینہ ارکان نے کہا کہ ”گندم کی نئی قیمت کا تعین منڈی پر چھوڑ دیا جائے“۔
ایم ایم گروپ آف کمپنیز کے چیئرمین، گندم کے بڑے برآمد کنندہ اور وزیر اعظم کے مشیر برائے سمندری امور محمود مولوی نے خود گندم کے بحران کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ”گندم کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے ذخیرہ اندوزی شروع ہوگئی ہے جس کی وجہ سے آنے والے دنوں میں گندم کی قیمت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ مقامی منڈی میں گندم کی قلت سے بچنے اور اس کی قیمت کو اعتدال میں رکھنے کے لیے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر عوام کو گندم کے بحران کے لیے تیار رہنا چاہیے“۔
جیسے کہ اس سے پہلے بیان کیا گیا کہ مئی میں گندم کی برآمد میں تیزی آئی جس کے نتیجے میں پنجاب میں اس کی قیمت میں اضافہ شروع ہوا اور محکمہ خوراک نے بجائے اس کے کہ گندم کی ہرقسم کی برآمد پر بروقت پابندی عائد کی جاتی ملک بھر میں گھریلو استعمال کے لیے ہونے والی گندم کی ترسیل کی سخت نگرانی شروع کردی جس پر پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن نے بھی احتجاج کیا۔ ملوں کو لے جانے والے گندم کے ٹرک ضبط کیے گئے جس سے ملک بھر میں گندم کی ترسیل متاثر ہوئی جو اس کی قیمت میں مزید اضافے کی وجہ بنی۔ گندم کی قیمت کھلی منڈی میں 1,400 روپے فی من تک جاپہنچی۔ لیکن حیرت انگیز طور پر پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن، پنجاب نے حکومت کی جانب سے آٹا اور اس سے بنی اشیاء کی افغانستان برآمد پر پابندی کی تجویز پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے آٹے کی اربوں روپے کی صنعت برباد ہوجائے گی۔ گندم کی برآمد پر پابندی ہونی چاہیے لیکن آٹا اور اس سے بنی اشیاء کی برآمد جاری رہنی چاہیے۔
آل پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن ملک میں گزشتہ ایک سال میں جتنی متحرک نظر آئی اس سے پہلے شاید کبھی نہ تھی۔ گزشتہ سال اپریل میں ہی چیئرمین پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن پنجاب حبیب الرحمن اور دیگر ارکان نے حکومت سے باضابطہ شکایت کی کہ گندم کی خریداری پالیسی میں بطور نجی شراکت دار ان کا کردار واضح نہیں ہے۔ حکومت نے ان کے لیے مسائل کھڑے کردئیے ہیں اور یہ خدشہ ہے کہ اس عمل سے گندم کی خریداری مہم متاثر ہوسکتی ہے۔ گندم کے نجی خریداروں کو مسائل کا سامنا ہے کیونکہ بینکوں کی عائد کردہ شرح سود زیادہ ہے۔
اوپر بیان کردہ عوامل سے ظاہر ہوتا ہے کہ قومی غذائی تحفظ پر ناصرف حکومت چاہے وہ مسلم لیگ کی ہو یا تحریک انصاف کی بلکہ ملک میں موجود موقع پرست سرمایہ دار، جاگیردار اور برآمد مافیا نے سودے بازی کرکے عوام کو سستے آٹے سے محروم کرکے اربوں روپے منافع بنانے کی سازش کی۔ گو کہ عالمی بینک کا زرعی منڈی میں اصلاحات کا منصوبہ معطل کردیا گیا ہے لیکن درحقیقت پالیسی ساز ملک میں کاروبار میں آسانی پیدا کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سازگار ماحول فراہم کرنے کے لیے ملک میں گندم، دودھ، گوشت اور اس جیسی دیگر لازمی غذائی اشیاء کی قیمت کا اختیار منڈی کے حوالے کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ خصوصاً پنجاب اور سندھ کے وزراء اور پالیسی ساز عوام کو مزید بھوک میں دکھیلنے کے اس گھناؤنے فعل میں برابر کے شریک ہیں۔
ملک میں گندم اور آٹے کی قیمت میں اضافے کی بنیادی وجوہات میں گندم کی بلاروک ٹوک قانونی اور غیرقانوی برآمد ہے جسے غلام ذہنیت پالیسی سازوں نے جان بوجھ کر کنٹرول کرنے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ حکومتی صفوں میں موجود برآمدی مافیا کے دباؤ پر گندم برآمد کرنے کی اجازت بھی دی۔ دونوں صوبوں میں بدعنوان افسر شاہی نے گندم کی سرحد پار ترسیل کو روکنے کے بجائے اندرون ملک اس کی ترسیل پر رکاوٹیں کھڑی کیں جس نے گندم کے حوالے سے مزید افواہوں کو جنم دیا اور گندم کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ اس دوران وفاقی حکومت نے روایتی نااہلی کا ثبوت دیتے ہوئے گندم کی برآمد پر پابندی میں تاخیر تو کی ہی ساتھ ہی ہنگامی طور پر صوبوں کو پاکستان ایگری کلچرل اسٹوریج اینڈ سروسس کارپوریشن کے گوداموں سے گندم جاری کرنے کا بروقت فیصلہ نہیں کیا گیا۔
حکومت کی جانب سے اس سارے بحران کے دوران ایک بیان تواتر سے سامنے آیا کہ ”ملک میں ضرورت کے مطابق گندم موجود ہے“۔ اعداد وشمار بھی اس دعوی کو درست ظاہر کرتے ہیں لیکن حکومت گزشتہ بجٹ میں عائد کیے گئے بھاری محصولات، روپے کی قدر میں کمی اور آٹا ملوں کو بجلی پر دی جانے والی زرتلافی کے خاتمے کا کہیں زکر نہیں کرتی جو آٹے کی پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ بنا اور مزید یہ کہ شرح سود میں اضافہ کردیا گیا۔ یقینا ملوں کو گندم کی ترسیل میں محکمہ خوراک کی جانب سے ڈالی گئی رکاوٹیں، کھلی منڈی میں اس کی بڑے پیمانے پر اسمگلنگ کی وجہ سے قیمت میں اضافہ اور آٹے کی پیداواری لاگت میں اضافے نے اس بحران کو شدید تر کیا ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عالمی منڈی سمیت افغانستان میں گندم اور اس سے بنی اشیاء کی برآمد کے منافع بخش کاروبار میں چینی اور گنے کی صنعت کی طرز پر بااثر سیاستدان اور تاجر طبقہ اثرانداز ہوتا جارہا ہے۔ خود وزیر اعظم کے مشیر برائے سمندری امور محمود مولوی ایم ایم گروپ آف کمپنیز کے چیئرمین ہیں جو گندم سمیت زرعی اجناس کی برآمد اور دیگر کئی صنعتوں سے وابستہ ہیں۔ پنجاب حکومت کا سرکاری خریداری کو محدود کرنے اور سندھ کابینہ کے وزراء اور مشیران کا سرے سے گندم کی سرکاری خریداری سے اجتناب ظاہر کرتا ہے کہ چونکہ جاگیردار، زمیندار، تاجر طبقہ خود بڑے بڑے زمینی رقبوں اور ان سے حاصل ہونے والی پیدوار کا مالک ہے، جنہیں آٹے کی قیمت میں ہونے والے اضافے سے کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ ملک کی 80 فیصد سے زیادہ کسان مزدور پیشہ عوام اس سے براہ راست متاثر ہوتی ہے۔
پاکستان میں سال 2007 میں بھی اسی طرح گندم اور آٹے کا بحران پیدا ہوا تھا۔ اس وقت دنیا بھر میں گندم کے جاری بحران کی وجہ سے عالمی منڈی میں گندم کی قیمت میں اضافہ ہوا جس کا مقامی سرمایہ داروں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور سستے داموں کھلی منڈی سے خریدا گیا گندم بھاری منافع کے ساتھ برآمد کردیا گیا تھا۔ اس دور کے وزیر اعظم شوکت عزیز پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے ملک سے گندم کی برآمد کا فیصلہ کیا تھا جس کی وزارت خوراک و زراعت نے مخالفت کی تھی۔ 2007 میں 300,000 ٹن گندم ملک سے 185 ڈالر فی ٹن قیمت پر برآمد کیا گیا اور پھر چند مہینوں بعد ہی 1.5 ملین ٹن گندم 400 ڈالر فی ٹن قیمت پر درآمد کیا گیا۔ گندم کی برآمد کا یہ فیصلہ ناصرف گندم کے بحران اور ملک میں آٹے کی قیمت میں اضافے کی وجہ بنا بلکہ اس سے قومی خزانے کو 25.8 بلین روپے کا بھاری نقصان بھی ہوا تھا۔
خیال رہے کہ اب بھی گندم درآمد کرنے کی تدابیرکی جارہی ہیں جبکہ صرف دو مہینے میں سندھ سے گندم کی نئی فصل سے پیداوار آنی شروع ہوجائے گی۔ عجب نہیں کہ گندم کی درآمد کا فیصلہ اس لیے کیا گیا ہو تاکہ اگلی فصل کے منڈی میں آنے پر گندم کی قیمت گرجائے۔ درآمدی گندم کی وجہ سے مقامی کسان کی پیدا کردہ گندم کی قیمت کم ہونے سے تاجر پھر سے سستی گندم خرید کر مہنگا آٹا بازار میں فروخت کرکے عوام کو بھوک سے بلکنے پر مجبور کریں گے۔ پاکستان بدقسمتی سے عالمی امدادی اداروں بشمول عالمی بینک، آئی ایم ایف اور ایشیائی ترقیاتی بینک جیسے اداروں اور سرمایہ دار ممالک کی آزاد تجارتی پالیسیوں کی ایک ایسی تجربہ گاہ کا منظر پیش کررہا ہے جہاں خوراک و دیگر زرعی اشیاء کے پیداواری وسائل سمیت اس کی منڈی پر قبضہ کا سلسلہ تیز تر ہوتا جارہا ہے۔ ملک میں گندم اور آٹے جیسی بنیادی خوراک کا یہ بحران اس قبضے کی صرف ایک کڑی ہے جس کا بنیادی مقصد خوراک کی پیداوار و منڈی پر سے سرکاری اختیار کا خاتمہ کرکے اسے سرمایہ داروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ آنے والے وقت میں شاید دودھ جیسی بنیادی خوراک کے حوالے سے بھی ایسی ہی صورتحال پیدا ہونے والی ہے کیونکہ کھلے دودھ کا کاروبار اب چھوٹے پیمانے پر کرنے والے عام آدمی کے ہاتھوں سے زبردستی چھین کر بڑی بڑی کمپنیوں کے حوالے کرنے کی منصوبہ بندی مکمل کرلی گئی ہے۔