مارچ 2020
مارچ 26 تا 1 اپریل، 2020
زمین
چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت یہ یقینی بنائے کہ عوامی غذائی تحفظ کی قیمت پر لاک ڈاؤن اور قرنطینہ نافذ نہ کیا جائے۔ حکومت پسماندہ شعبہ جات بشمول بے زمین دیہی افراد کو فوری طور پر معاشی مدد فراہم کرے۔ 29 مارچ، بے زمینوں کے دن کی مناسبت سے روٹس فار ایکوٹی اور پاکستان کسان مزدور تحریک نے مطالبہ کیا کہ یہ یقینی بنایا جائے کہ کووڈ۔19 کے دوران مزید دیہی عوام کو ان کی زمینوں اور روزگار سے بیدخل نہ کیا جائے۔ بے زمین کسانوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے کسان جاگیرداری نظام میں کئی طرح کے ظالمانہ حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں، خصوصاً کسان عورتیں جاگیرداروں اور پدر شاہی کے ہاتھوں دہرے استحصال کا شکار ہیں۔ بڑی کمپنیوں کے زریعے سرمایہ دارانہ زراعت نے زرعی پیداوار اور منڈیوں پر قبضہ کرلیا ہے جس کے نتیجے میں بے زمینوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔
(ڈان، 30 مارچ، صفحہ9)
زراعت
ایک خبر کے مطابق زرعی شعبہ میں اطلاعاتی (انفارمیشن) ٹیکنالوجی کے ذریعے ترقی کے لیے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور اقوام متحدہ کا ادارہ خوراک و زراعت (فاؤ) کے درمیان تعاون پر مبنی ایک معاہدے طے پاگیا ہے۔ یہ معاہدہ مواصلاتی رابطے کے زریعے ہونے والی ایک تقریب میں کیا گیا۔ اس موقع پر فاؤ کی نمائندہ مینا ڈولاچی کا کہنا تھا کہ زراعت میں جدت ضروری ہے کیونکہ چھوٹے کسان ناصرف خوراک پیدا کرنے والے ہیں بلکہ صارف بھی ہیں اور پاکستان کے قدرتی وسائل زمین، پانی، حیاتیاتی تنوع اور بیجوں کے نگہبان ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ 80 فیصد قابل کاشت زمین چھوٹے کھیتوں پر مشتمل ہے اور ان کی اکثریت اب تک فرسودہ زرعی طریقوں کے تحت کاشت کی جاتی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 26 مارچ، صفحہ3)
ایک خبر کے مطابق پنجاب میں موجود ٹڈی دل کے انڈوں (ہیچری) سے زراعت کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر ان انڈوں کا بر وقت خاتمہ نہ کیا گیا تواگلے دو سے تین ماہ کے دوران کچھ اضلاع میں ٹڈی دل کے حملے سے فصلوں کو کافی نقصان ہوسکتا ہے۔ ٹڈی دل کے حملے کا خطرہ ساہیوال، خوشاب، بہاولنگر اور راجن پور میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ضلع اوکاڑہ کی تحصیل دیپالپور میں 7,203 ایکڑ رقبے پر محیط قدرتی جنگل ٹڈی دل کی افزائش کے مقام کے طور پر شناخت کیا گیا ہے جہاں گزشتہ دو سے تین ہفتوں میں ٹڈی دلوں نے اربوں انڈے دیے ہیں۔ محکمہ زراعت کا کہنا ہے کہ ٹڈی دل کے اڑنے کی صلاحیت حاصل کرنے سے پہلے ہی ان کے خاتمے کا انتظام کرنا انتہائی ضروری ہے۔ راجستھان، بھارت سے ان کے جھنڈ کے جھنڈ آنے کاخدشہ ہے جس سے بہاولپور، بہاولنگر، خانیوال، ملتان، بھکر اور لیہ کے اضلاع زیادہ متاثر ہوں گے۔
(ڈان، 27 مارچ، صفحہ2)
کھاد
ایک خبر کے مطابق مقامی کھاد بنانے والوں کی جانب سے یوریا کی قیمت میں کمی کے نتیجے میں سالانہ 28 بلین روپے کا فائدہ ہوگا جو قومی خزانے پر اثر انداز ہوئے بغیر کسان آبادیوں کو منتقل ہوگا۔ حال ہی میں اینگرو فرٹیلائزر کی قیادت میں کھاد کی صنعتوں نے ملک میں غذائی تحفظ کو یقینی بنانے اور زرعی شعبے کو مدد فراہم کرنے کی غرض سے یوریا کی قیمت میں کمی کردی ہے۔ اینگرو فرٹیلائزر نے کھاد کی فی بوری قیمت میں 240 روپے کمی کی ہے۔ اسی طرح دیگر صنعتوں نے بھی یوریا کی قیمت میں کمی کی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 28 مارچ، صفحہ1)
پانی
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (پی سی آر ڈبلیو آر) کی ایک تحقیق کے مطابق اگر موجودہ تناسب سے آبادی میں اضافہ جاری رہا اور آبی وسائل پر دباؤ برقرار رہا تو پاکستان سال 2025 تک پانی کی شدید قلت کمی سطح پر آجائے گا۔ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا آبپاشی نظام سب سے بڑے آبپاشی نظاموں میں سے ایک ہے، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس کا انتظام بہت اچھا نہیں ہے۔ لہذا پانی کی قلت ایک بڑے مسئلے کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہے۔ عالمی بینک کے مطابق ایک ملین ایکڑ فٹ پانی بچانے کا مطلب ہے ایک بلین ڈالر کا تحفظ۔ چیئرمین پی سی آر ڈبلیو آر ڈاکٹر محمد اشرف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پانی سے متعلق انتظامی ادارہ (واٹر اتھارٹی) نہ ہونے کے باعث ملک میں کوئی بھی کسی بھی حجم کا ٹیوب ویل لگاسکتا ہے اور جتنی مقدار میں چاہے زمین سے پانی نکال سکتا ہے۔ امیر کاشت کار اس کا فائدہ اٹھا کرپانی غریب کسانوں کو فروخت کرتے ہیں جو اپنے استعمال کے لیے ٹیوب ویل لگانے کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے۔
(بزنس ریکارڈر، 26 مارچ، صفحہ12)
پنجاب حکومت نے صوبے میں آبپاشی کا جدید نظام متعارف کرنے کے لیے 3.68 بلین روپے لاگت کا ایک تفصیلی منصوبہ تیار کیا ہے۔ یہ اقدامات پنجاب میں آبپاشی میں استعمال ہونے والے پانی کے زیاں پر قابو پانے کے لیے کیے جارہے ہیں۔ یہ نیا نظام پیداواری اخراجات میں کمی کرے گا، فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرے گا اور جدید و منافع بخش زراعت کو فروغ دے گا۔ زمین ہموار کرنے اور پانی و بجلی کی بچت میں معاون ہوگا۔ حکومت صوبے میں فوارہ (اسپرنکلر) آبپاشی نظام کی تنصیب کے لیے کسانوں کو 50 فیصد زرتلافی فراہم کرے گی۔ سرکاری ذرائع کے مطابق منصوبے کے تحت پنجاب کے مختلف علاقوں میں 20,000 ایکڑ زمین پر فوارہ آبپاشی نظام کے لیے شمسی توانائی کا نظام بھی نصب ہوگا۔ یہ آبپاشی نظام کاشتکاروں کو 50 فیصد پانی کو محفوظ کرنے کے قابل بنائے گا۔
(بزنس ریکارڈر، 30 مارچ، صفحہ39)
گندم
وزیر زراعت سندھ اسماعیل راہو نے کہا ہے کرونا وائرس کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں آٹا ملوں کو حکومت سے گندم خریدنے کی اجازت دے دی گئی ہے جبکہ حکومت نے کسانوں سے گندم کی خریداری شروع کردی ہے۔ آٹا مل یومیہ 5,000 ٹن گندم حاصل کررہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سال سندھ میں 3.8 ملین ٹن گندم کی پیداوار متوقع ہے اور حکومت 1,400 روپے فی من قیمت پر 1.4 ملین ٹن گندم کسانوں سے خریدے گی۔ باردانے کی تقسیم میں تاخیر کی وجہ سے گندم کی خریداری میں ایک ہفتے کی تاخیر ہوئی ہے۔ سندھ حکومت نے ہدف کے حصول کے لیے 12 ملین پلاسٹک کی اور 2.8 ملین پٹ سن کی بوریاں خریدی ہیں۔ گندم کی سرکاری خریداری کے لیے 23 اضلاع میں 525 مراکز قائم کیے گئے ہیں۔
(ڈان، 29 مارچ، صفحہ15)
سندھ چیمبر آف ایگری کلچر (ایس سی اے) نے سندھ حکومت کی جانب سے گندم کی ایک ضلع سے دوسرے ضلع منتقلی پر عائد کی جانے والی پابندی کی مزمت کی ہے۔ ایس سی اے کے نائب صدر نبی بخش سہتو نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ اس فیصلے سے یہ تاثر ابھرے گا کہ یہ فیصلہ محکمہ خوراک کے بدعنوان عہدیداروں کی ایما پر کیا گیا ہے، یہ فیصلہ کسانوں کو اپنی پیداوار کم قیمت پر تاجروں کو فروخت کرنے پر مجبور کرے گا۔ اس کے بعد تاجروں سے یہی گندم محکمہ خوراک کے زریعے خریدی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس پابندی سے پہلے منڈی میں گندم 1,550 سے 1,600 روپے فی من فروخت ہورہا تھا اور اب یہ قیمت کم ہوکر 1,250 سے 1,300 روپے فی من پر آگئی ہے۔ انھوں نے چیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ پر زور دیا ہے کہ وہ گندم کی نقل و حمل پر عائد کی گئی پابندی فوری طور پر ختم کرنے کے احکامات جاری کریں۔
(ڈان، 31 مارچ، صفحہ15)
سندھ چیمبر آف ایگری کلچر (ایس سی اے) لاڑکانہ کے صدر سراج الاولیا راشدی نے کہا ہے کہ لاڑکانہ ڈویژن میں حالیہ بارشوں اور آندھی نے گندم کی تیار فصل کو نقصان پہنچایا ہے لیکن اس کے باوجود سندھ میں گندم کی شاندار پیداوار ہوگی اور لاک ڈاؤن کے دوران صوبے میں آٹے اور گندم کی کمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 2019 کے اندازوں کے مطابق لاڑکانہ اور قمبر شہداد کوٹ کے اضلاع میں 220,000 ایکڑ زمین پر گندم کاشت کی گئی تھی۔ انہوں نے اس خیال کو بھی رد کیا ہے کہ ٹڈی دل نے گندم کی کاشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
(ڈان، 31 مارچ، صفحہ15)
ماہی گیری
کراچی کے ساحلی علاقوں میں رہنے والی آبادیوں نے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے حکام کی توجہ لاک ڈاون کی وجہ سے گزشتہ سات روز سے ماہی گیروں میں بیروزگاری، بھوک کی طرف مبذول کروائی ہے۔ ساحلی علاقے ابراہیم حیدری میں واقعہ بے نظیر بھٹو چوک پر عورتوں اور بچوں سمیت سینکڑوں افراد نے احتجاجی دھرنا دیا۔ پولیس اور نیم فوجی دستوں کی جانب سے ان کے مسائل اعلیٰ حکام تک پہنچانے کی یقین دہانی پر دھرنا ختم کردیا گیا۔ ماہی گیروں کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کے سربراہ کاکہنا ہے کہ گزشتہ سات دنوں سے ساحلی علاقوں میں آباد افراد خصوصاً ماہی گیر بے روزگار ہوگئے ہیں، اپنے خاندان کے لیے خوراک کی کمی کی وجہ سے متاثر ہورہے ہیں جس کی وجہ سے ماہی گیر سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کراچی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں اندازاً ایک ملین سے زیادہ ماہی گیر ہیں جو ساحلی علاقوں میں رہتے ہیں اور اس وقت لاک ڈاؤن کے باعث سمندر میں نہیں جاسکتے۔ ان کا واحد زریعہ روزگار ماہی گیری ہے۔
(ڈان، 30 مارچ، صفحہ14)
مرغبانی
مرغبانی صنعت سے وابستہ حکام کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ملک بھر میں ہونے والے لاک ڈاؤن سے مرغبانی کی صنعت کو کئی ملین روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ہوٹلوں اور شادیوں کی بندش سے سینکڑوں پولٹری فارمر متاثر ہوئے ہیں کیونکہ مرغی کی فروخت 50 سے بھی زیادہ کم ہوگئی ہے۔ طلب میں کمی کی وجہ سے مرغی کی قیمت میں بھی 50 فیصد کمی ہوگئی ہے۔ پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے ترجمان خلیل ستار کا کہنا ہے کہ نقصانات سے بچنے کے لیے ایسوسی ایشن نے حکومت سے بجلی کے نرخوں میں کمی اور قرضہ جات کی وصولی موخر کرنے کی درخواست کی ہے۔
(دی نیوز، 29 مارچ، صفحہ17)
غربت
کرونا وائرس کے منفی اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان کے اعلان کردہ امدادی پیکچ کے تحت کم آمدنی والے 10 ملین افراد کو چار ماہ کے لیے 12,000 روپے پر مشتمل وظیفہ فراہم کیا جائے گا۔ فنانس ڈویژن کے دستاویز کے مطابق حکومت اس پیکچ کے تحت 144 بلین روپے فراہم کرے گی۔ یہ رقم حکومت کی جانب سے پہلے سے جاری احساس پروگرام کے تحت دی جانی والی رقم کے علاوہ ہوگی۔ اس کے علاوہ وزیراعظم نے یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کے لیے 200 بلین روپے کا اعلان کیا ہے اور توقع ہے کہ یہ رقم صوبائی حکومتوں کے ذریعے ادا کی جائے گی۔ تاہم اس حوالے سے حکمت عملی اب بھی تیاری کے مراحل میں ہے۔ احساس پروگرام سے منسلک اعلی حکومتی حکام نے حکومت کو تجویز دی تھی کہ کرونا وائرس سے بری طرح متاثرہ ہونے والے غریب افراد کو ماہانہ 4,000 روپے دینے کا اعلان کیا جائے لیکن وزارت خزانہ نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے 3,000 روپے ماہانہ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔
(ڈان، 27 مارچ، صفحہ3)
کتہ نظرس ہفتے کی خبریں بھی ملک بھر میں چھوٹے اور بے زمین کسان مزدورں، ماہی گیروں کے لیے کرونا وائرس کے دوران بدتر ہوتے حالات کو ظاہر کررہی ہیں۔ ساحلی علاقوں کی ماہی گیر آبادیاں بھوک اور بیروزگاری سے تنگ آکر احتجاج پر مجبور ہوچکی ہیں جن کے لیے ایک ہفتہ گزرجانے کے باوجود امداد تاحال حکومتی اعلانات اور حکمت عملی کی تیاری کے بہانوں تک محدود ہے۔ یقینا ملک بھر میں سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام ہی موجودہ وبائی صورتحال میں چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں، ماہی گیروں اور دیگر شعبہ جات سے منسلک مزدوروں میں بھوک اور غربت کا ذمہ دار ہے، جس میں سرمایہ دار اور جاگیردار زمینی اور دیگر پیداوار وسائل کے ساتھ ساتھ منڈیوں پر بھی قابض ہیں۔ اس صورتحال نے ظلم و استحصال کے شکار اس اکثریتی طبقے کا غذائی تحفظ چھین کر انہیں موجودہ حالات میں بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے۔ اس ہی ظالم طبقے پر مشتمل حکومت اور پالیسی ساز چند ہی دنوں میں ہی کیمیائی کھاد اور دیگر صنعتوں کو عوامی خزانے سے اربوں روپے کی امداد دینے اور ٹیکس میں چھوٹ دینے کے لیے فوری اقدمات کرتے ہیں لیکن بات جب کسان مزدور عوام کی ہو تو یہی سرمایہ داروں کے ایجنٹ اور جاگیر دار پالیسی ساز کئی اجلاسوں کے بعد غریب کسان مزدور کو 4,000 روپے ماہانہ امداد دینے کی مخالفت پر اتر آتے ہیں۔ پاکستان کسان مزدور تحریک اور دیگر کسان دوست تنظیموں کی جدوجہد اور مطالبات یقینا آفت کی اس گھڑی میں اہم ترین ضرورت ہے۔ موجودہ وبائی صورتحال نے پی کے ایم ٹی کے اس نظریہ کو تقویت فراہم کی ہے کہ خوراک کی خودمختاری اور دیگر بنیادی ضروریات بشمول صحت و تعلیم اس گلے سڑے سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام میں ممکن نہیں۔ چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں سمیت تمام تر استحصال کے شکار عوام کی بقاء صرف و صرف پیداواری وسائل بشمول زمین کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم اور پائیدار پیداوار و کھپت کے نظام میں
ہے۔
مارچ 19 تا 25 مارچ، 2020
زراعت
وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے صوبائی حکومتوں کی جانب سے کورونا وائرس کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات اور خریف 2020کے آغاز کے پیش نظر تمام صوبوں سے درخواست کی ہے کہ وہ زرعی مداخل کی بروقت دستیابی یقینی بنانے کے لیے کیمیائی کھاد، زرعی زہر، اور بیجوں کی ترسیل کو لاک ڈاؤن کے دوران پابندی سے استشنی دیا جائے۔ اس سلسلے میں وزارت کی جانب سے تمام صوبائی چیف سیکریٹریوں کو خط لکھا گیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ یہ قدم ملک میں غذائی تحفظ کو یقینی اور تمام فصلوں کے پیداواری ہدف کے حصول کو یقینی بنائے گا۔
(بزنس ریکارڈر، 24 مارچ، صفحہ3)
گندم
سندھ حکومت کی جانب سے شہروں کے درمیان جزوی طور پر سفر پر عائد پابندی پر آٹا ملوں نے کراچی کو گندم کی ترسیل کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ کراچی آٹا چکی ایسوسی ایشن کے صدر انیس شاہد نے کہا ہے کہ ٹرانسپورٹر صوبے کے مختلف علاقوں سے گندم کراچی نہیں لارہے ہیں۔ ڈرائیوروں اور دیگر ارکان کو خوف ہے کہ انہیں شہر میں قیام کرنا پڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے آٹا فروخت کرنے والے کئی مراکز کو جبراً بند کروا دیا ہے کیونکہ وہاں صارفین کا ہجوم تھا۔ انہوں نے کمشنر کراچی سے اپیل کی ہے کہ گندم سے لدی گاڑیوں کو شہر میں داخلے کی اجازت دی جائے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 20 مارچ، صفحہ5)
وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق مخدوم خسرو بختیار کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں ضلع سے باہر گندم کی ترسیل اور نجی شعبہ پر اس وقت تک گندم کی خریداری پر پابندی کی تجویز دی ہے جب تک گندم کی خریداری کا سرکاری ہدف پورا نہیں ہوجاتا۔ اجلاس میں فیڈ (چارہ بنانے والے) ملوں، چاول ملوں اور کپاس کی جننگ ملوں کو گندم کی خریداری سے روکنے پر اتفاق کیا گیا۔ اس سال پاسکو کا گندم کی خریداری کا ہدف 1.8 ملین ٹن، پنجاب کا 4.5 ملین ٹن اور سندھ کا 1.4 ملین ٹن مقرر کیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت 1,400 روپے فی من مقرر کی جاچکی ہے۔
(ڈان، 20 مارچ، صفحہ10)
ڈپٹی ڈائیریکٹر ایگری کلچر (ایکسٹینشن) ڈاکٹر افتخار احمد وڑائچ نے انکشاف کیا ہے کہ پنجاب میں گندم کی پیداوار میں اضافے کے زریعے آمدنی میں اضافے کا 16,518 ملین روپے کی لاگت کا پانچ سالہ قومی منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ اخبار سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ منصوبے کا مقصد گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں سات من کا اضافہ کرنا ہے۔ منصوبے کے تحت زرعی مشینری پر 50 فیصد زرتلافی کی فراہمی کے زریعے مشینی زراعت کے فروغ پر توجہ مرکوز ہوگی۔ منصوبے کے تحت مصدقہ بیجوں، مناسب کیمیائی کھاد کے استعمال، بروقت بوائی، نباتات کا انتظام اور کٹائی کے بعد ہونے والے نقصانات میں کمی اس منصوبے میں شامل ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 23 مارچ، صفحہ14)
ایک خبر کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے امدادی پیکج کا اعلان متوقع ہے جس میں کئی شعبہ جات بشمول برآمد، غذائی تحفظ، سیفٹی نیٹ (بی آئی ایس پی وغیر)، سرمایہ کار منڈی، چھوٹے اور درمیانے کاروباری ادارے، ادویات اور اس سے متعلق اشیاء، بجلی، گیس و پٹرولیم شامل ہونگے۔ ایک اعلی سرکاری افسر کے مطابق امدادی پیکج میں برآمد کنندگان کے لیے 200 بلین روپے، یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کے لیے 200 روپے بلین روپے، 100 بلین روپے چھوٹے اور درمیانی کاروباری اداروں، 280 بلین روپے کسانوں کو گندم کی خریداری کی صورت میں، یوٹیلٹی اسٹوروں کے لیے 50 بلین روپے شامل ہیں۔ سرکاری ملازمین اور طبی عملے کے لیے بھی 50 بلین روپے مختص ہونگے۔
(ڈان، 24 مارچ، صفحہ12)
کپاس
ایک خبر کے مطابق 15 مارچ 2020 تک ملک بھر میں جنرز کے پاس 8.57 ملین گانٹھ کپاس کے برابر پھٹی پہنچ چکی ہے جو پچھلے سال کے مقابلے 20.36 فیصد کم ہے۔ پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے مطابق 8.57 ملین گانٹھیں کپاس جننگ کے مرحلے سے گزری ہے۔ پنجاب میں جنرز کو 5.09 ملین جبکہ سندھ میں 3.47 ملین گانٹھیں کپاس موصول ہوچکی ہے۔ تقریبا آٹھ ملین گانٹھیں کپاس فروخت ہوچکی ہے جبکہ بقیہ کپاس جنرز کے پاس موجود ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 19 مارچ، صفحہ16)
پھل سبزی
ایک خبر کے مطابق ایڈوکیٹ ذوالفقار احمد بھٹہ کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت تین مہینوں کے لیے پھل اور سبزیوں کی برآمد پر پابندی عائد کرے تاکہ عوام مناسب قیمتوں پر پھل اور سبزیاں خرید سکیں۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ سے ہر کوئی اپنی بقاء کے لیے خوفزدہ ہے۔ اس وبائی مرض کی ویکیسین دستیاب نہیں ہے اور واحد حل انسانی قوت مدافعت میں اضافہ ہے جو صرف مختلف سبزیوں اور پھلوں کے زریعے ممکن ہے۔ خصوصاً کینو جس میں وٹامن سی کی زیادہ مقدار ہوتی ہے۔ منڈی میں مناسب کینو 230 روپے فی درجن فروخت ہورہا ہے جو ایک غریب خاندان کی پہنچ سے باہر ہے۔ قیمتوں کی اضافے کی وجہ حکومت کی جانب سے پھلوں اور سبزیوں کی دیگر ممالک کو برآمد کے لیے عوام کی بھوک کی بنیاد پر اپنائی گئی بدترین پالیسی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 25 مارچ، صفحہ5)
چینی
ملک میں چینی کی قیمت میں اضافے کے باوجود وزارت صنعت و پیداوار نے آخری لمحات میں کابینہ کی اقتصاد ی رابطہ کمیٹی میں چینی درآمد کرنے کی درخواست واپس لے لی ہے۔ باخبر زرائع کے مطابق وزارت نے ملک میں گنے کی کرشنگ کے جاری موسم کے باوجود چینی کی بڑھتی ہوئی قیمت کے تناظر میں بلا محصول 30,000 ٹن چینی درآمد کرنے کی درخواست کی تھی۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے آغاز میں ہی سیکریٹری کابینہ نے آگاہ کیا کہ وزارت صنعت و پیداوار نے چینی کی درآمد کی درخواست واپس لے لی ہے۔
(ڈان، 19 مارچ، صفحہ10)
پانی
ایک خبر کے مطابق لاڑکانہ میں مہوٹا ریگولیٹر اور نیو بس اسٹینڈ کے قریب رائس کنال سے بڑے پیمانے پر ریتی بجری نکالنے کا عمل سیلاب بچاؤ بند کو نقصان پہنچانے کا باعث بن رہا ہے جس کی تعمیر اور مضبوطی پر کئی بار لاکھوں روپے کی لاگت آچکی ہے۔ متعلقہ حکام اس غیر قانونی عمل پر اپنی آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ ریتی بجری کا انخلا نہری پشتوں کو بھی آہستہ آہستہ کمزور کرنے کاسبب بن رہا ہے۔ مقامی افراد سمجھتے ہیں کہ اس کام میں ضلع لاڑکانہ کے کچھ سیاسی اثر ورسوخ کی حامل شخصیات ملوث ہیں اور حکومتی اہلکار بھی اس میں ملوث ہیں۔ آخری بار 2010-11 کے سیلاب کے بعد محکمہ آبپاشی کی جانب سے اس بند کو مستحکم کرنے کا کام کیا گیا۔
(ڈان، 24 مارچ، صفحہ15)
کھاد
اینگرو فرٹیلائزر نے قومی غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اور کسانوں کی مدد کے لیے یوریا کی فی بوری قیمت میں مزید 240 روپے کمی کر دی ہے۔ کمپنی کے مطابق کرونا کی صورتحال میں موجودہ کمی کے نتیجے میں اس سال کے آغاز سے اب تک یوریا کی قیمت میں 400 روپے فی بوری کمی ہوئی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 25 مارچ، صفحہ5)
غربت
وزیر اعظم عمران خان نے کرونا وائرس سے متاثرہ ملک کے مختلف شعبہ جات کے لیے کئی بلین روپے کے امدادی پیکج کی منظوری دے دی ہے۔ زرائع کے مطابق بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے تحت ماہانہ وظیفہ 2,000 سے 3,000 روپے کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ اس وقت بی آئی ایس پی سے فائدہ اٹھانے والوں کی کل تعداد 5.2 ملین ہے۔
(ڈان، 24 مارچ، صفحہ1)
نکتہ نظر
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کرونا وائرس سے براہ راست عوام خصوصاً کسان مزدور عوام معاشی، جسمانی اور نفسیاتی طور پر متاثر ہیں جس کی جھلک اس ہفتے کی خبروں میں بھی نمایاں ہے۔ ملک بھر میں اس صورتحال میں گندم کی کٹائی، اس کی سرکاری خریداری، اس کی ترسیل شدید متاثر ہونے کا اندیشہ ہے اور تاحال یہ اطلاعات نہیں کہ ملک میں گندم کی سرکاری خریداری کا آغاز کیا گیا۔ وزیر اعظم کے امدادی پیکچ میں سوائے گندم کی خریداری کے لیے مختص رقم کے سوا کچھ نہیں جو اس شعبہ سے وابستہ کسان مزدوروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے کیونکہ گندم کی سرکاری خریداری کے لیے رقم پہلے ہی مختص کی جاچکی ہے۔ حسب معمول سرمایہ داروں اور جاگیرداروں پر مشتمل اشرافیہ کی حکومت کی جانب سے اس تمام تر موجودہ وبائی صورتحال سے متاثر ہونے والے غریب، محنت کش، کسان مزدوروں کے بجائے ملک کے سرمایہ دار برآمد کنندگان، کاروباری اداروں اور کمپنیوں کے لیے بڑے پیمانے پر مراعات کا اعلان کیا جارہا ہے۔ ملک کی آدھی سے زیادہ کسان مزدور و محنت کش آبادی کے لیے 200 بلین روپے اور یوٹیلیٹی اسٹوروں کے زریعے سستی خوراک کی فراہمی کے لیے 50 بلین روپے مختص کیے گئے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ جبکہ دوسری طرف سرمایہ دار اداروں اور کمپنیوں کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے کمپنیوں کے بیج، زرعی مشینری، کیمیائی و زہریلے مداخل کو فروغ دینے کے لیے 16 بلین روپے سے زیادہ کی رقم مختص کی جاتی ہے۔ یقینا سرمایہ داری نظام میں غیر پائیدار طریقہ پیداوار اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم موجودہ وبائی صورتحال میں غریب کسان مزدور طبقے کے حالات زندگی بدترین بنانے کی ذمہ دار ہے جسے جڑ سے اکھاڑ پھینکے کی ضرورت ہے۔
مارچ 5 تا 11 مارچ، 2020
زمین
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے گذشتہ پانچ سالوں کے دوران غیر ملکیوں کے ذریعے خریدی گئی تمام زمین کا ریکارڈ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کی جانب سے پیش کیے گئے آئین کے آرٹیکل 253 اے کے ترمیمی بل 2018 پر تبادلہ خیال کے بعد کیا گیا۔ ترمیمی بل کے حوالے سے سینیٹر کا کہنا تھا کہ یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اس بل کے تحت کوئی غیرملکی ملک میں غیرمنقولہ جائیدار رکھنے اور خریدنے کا اہل نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہنا چاہیے لیکن قومی مفاد پر سمجھوتا نہیں ہونا چاہیے۔ کسی بھی غیرملکی کو 20 سال سے زیادہ عرصے کے لیے زمین لیز پر نہیں دینی چاہیے کیونکہ پاکستان میں دو دہائیوں بعد ریکارڈ کا حصول تقریباً ناممکن بن گیا ہے۔ 20 سال بعد یہ دیکھا جائے کہ آیا زمین کی لیز بڑھنی چاہیے یا نہیں۔
(ڈان، 10 مارچ، صفحہ4)
پانی
محکمہ آبپاشی سندھ اور سندھ ایریگیشن اینڈ ڈرینج اتھارٹی کے اہلکاروں نے سیو بدین ایکشن کمیٹی کے سربراہ میر نور احمد تالپور کی زمین کو سیراب کرنے والے واٹرکورس بند کردیے ہیں۔ میرنور احمد تالپور نے پھلیلی نہر میں تین مقامات پر رکاوٹیں کھڑی کرنے اور بااثر افراد کو پانی فراہم کرنے پر آواز اٹھائی تھی۔ ان کا کہا ہے کہ اگر انتقامی کارروائیاں بند نہ کی گئیں اور نہروں میں پانی جاری نہیں کیا گیا تو وہ ضلع کے تمام چھوٹے بڑے قصبوں میں 20 مارچ سے ہڑتال کریں گے۔ چیئرمین ایریا واٹر بورڈ قبول محمد کاتھیان نے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیرقانونی واٹرکورسوں کے خلاف کارروائی کا آغاز عدالتی احکامات پر کیا گیا ہے۔
(ڈان، 7 مارچ، صفحہ17)
زراعت
چین نے ٹڈی دل کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے مختلف صوبوں میں اپنی خدمات فراہم کرنے کے لیے رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ چین پاکستان کو پانچ ملین ڈالر کی تکنیکی معاونت کے ساتھ ساتھ 50 عدد ڈرونز اور 300,000 لیٹر کیڑے مار مواد بھی فراہم کرے گا جو صوبہ سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے متاثر علاقوں میں استعمال کیا جائے گا۔ سیکریٹری وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق ہاشم پوپلزئی کا کہنا ہے کہ چینی حکومت نے فوری طور پر ڈرونز بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جن کی پہلی کھیپ نو مارچ کو پاکستان پہنچے گی۔ چین سے تکنیکی ماہرین کی ٹیم بھی بھیجی جائیگی جو محکمہ تحفظ نباتات اور متعلقہ صوبائی محکموں کو تربیت بھی دے گی۔
(ڈان، 5 مارچ، صفحہ5)
گندم
وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے گندم کی امدادی قیمت 1,365 روپے سے بڑھا کر 1,400 روپے فی من کرنے کے لیے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی سے دوبارہ رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزارت کو خدشہ ہے کہ اعلان کردہ قیمت (1,365 روپے فی من) پر 8.25 ملین ٹن گندم کی خریداری کا ہدف حاصل نہیں ہوگا۔ سیکریٹری وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق ڈاکٹر ہاشم پوپلزئی نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا ہے کہ اس سلسلے میں بین الصوبائی اجلاس میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کو بھیجی جانے والی سمری کو حتمی شکل دی جائے گی جس میں گندم کی امدادی قیمت 1,400 روپے فی من کرنے کی سفارش کی جائے گی۔
(بزنس ریکارڈر، 5 مارچ، صفحہ3)
قومی احتساب بیورو، بلوچستان نے لاکھوں روپے مالیت کی گندم کی چوری کے الزام میں محکمہ خوراک کے اعلیٰ افسر کے خلاف احتساب عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے۔ مقدمہ ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر بشیر ابڑو کے خلاف اختیارت کے غلط استعمال اور مبینہ طور پر بدعنوانی میں ملوث ہونے پر قائم کیا گیا ہے۔ قومی احتساب بیورو کے مطابق بشیر ابڑو تحقیقات کے دوران یہ وضاحت دینے میں ناکام رہے کہ محکمہ کی 7,000 گندم کی بوریاں کہاں غائب ہوئی ہیں اور 3,000 بوریاں کس طرح ضائع ہوئی ہیں۔
(ڈان، 6 مارچ، صفحہ5)
آٹا مل مالکان نے ان اطلاعات پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ آئندہ موسم میں انہیں گندم کی خریداری سے روک دیا جائے گا۔ مل مالکان کا کہنا ہے کہ اس حکومتی اقدام سے ناصرف کسانوں کو نقصان ہوگا بلکہ اس سے صوبے پر مالی بوجھ بھی پڑے گا۔ آٹا مل مالکان کی جانب سے وزیر اعلیٰ، وزیر خوراک پنجاب و دیگر ذمہ داران کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ حکومت کو 4.5 ملین ٹن گندم کی خریداری کے لیے 154 بلین روپے مختص کرنے پڑیں گے اور خریدی گئی گندم کو ذخیرہ کرنے کے لیے چھ ماہ تک یومیہ اوسطاً 100 ملین روپے اخراجات ہونگے۔ آٹا مل مالکان حکومت کے اس مالی بوجھ کو بانٹ سکتے ہیں اگر حکومت انہیں منڈی میں متحرک کردار ادا کرنے کی اجازت دے۔
(ڈان، 7 مارچ، صفحہ2)
اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ خوراک و زراعت (فاؤ) کے مطابق اس سال مناسب موسمی صورتحال اور زرعی مداخل کی مناسب دستیابی کی وجہ سے پاکستان میں 25.2 ملین ٹن گندم کی پیداوار متوقع ہے۔ تاہم پنجاب اور سندھ میں حالیہ ٹڈی دل حملے سے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ حکومت نے اس سال گندم کا پیداواری ہدف 27.03 ملین ٹن مقرر کیا ہے۔ جبکہ گزشتہ سال شدید موسمی صورتحال کی وجہ سے 1.5 ملین ٹن گندم ضائع ہوگئی تھی۔
(ڈان، 7 مارچ، صفحہ10)
ٰوفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ملک میں گندم کے بحران پر وزیراعظم عمران خان رپورٹ پیش کردی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں گندم کی کوئی کمی نہیں تھی۔ یہ بحران مصنوعی طور پر پیدا کیا گیا۔ رپورٹ میں بد انتظامی آٹے کے بحران کی وجہ بتائی گئی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اب بھی ملک میں 2.1 ملین ٹن گندم موجود ہے۔
(دی نیوز، 8 مارچ، صفحہ1)
وفاقی حکومت نے چاروں صوبوں کے تعاون سے خریداری مہم میں 8.25 ملین ٹن گندم خریدنے کے لیے تمام انتظامات مکمل کرلیے ہیں۔ وزارت قومی غذائی تحفظ وتحقیق کے ترجمان کے مطابق گندم کی خریداری مہم سندھ میں 15 مارچ سے جبکہ پنجاب میں اگلے مہینے شروع ہوگی۔ سندھ 1.4 ملین ٹن گندم خریدے گا۔ گندم کی سرکاری خریداری کے لیے صوبے میں 57 مراکز قائم کیے گئے ہیں اور باردانے کی تقسیم کا آغاز 15 مارچ سے ہوگا۔ اس کے علاوہ پاسکو تمام صوبوں سے 1.8 ملین ٹن گندم خریدے گا۔ اس سال صوبہ پنجاب 4.5 ملین ٹن، خیبرپختونخوا 0.45 ملین ٹن اور بلوچستان 0.1 ملین ٹن گندم خریدے گا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 9 مارچ، صفحہ3)
ویٹ ریویو کمیٹی نے گندم کی امدادی قیمت 1,400 روپے فی من مقرر کرنے کے لیے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی میں سفارش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گندم کی امدادی قیمت 1,365 روپے فی من مقرر کی گئی تھی۔ تاہم حالیہ گندم کے بحران میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ کسان کیوں اپنی پیداوار کم قیمت پر صوبائی حکومتوں اور سرکاری اداروں کو فروخت کریں گے جبکہ منڈی میں اس کی قیمت زیادہ ہے۔
(ڈان، 10 مارچ، صفحہ3)
کپاس
سندھ چیمبر آف ایگری کلچر (ایس سی اے) نے معیاری بیج کی عدم دستیابی کی وجہ سے کپاس کی پیداوار میں شدید کمی کے تناظر میں ہنگامی حالت (کاٹن ایمرجنسی) نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ صدر میران محمد شاہ کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں بات سامنے آئی کہ گزشتہ سال کپاس کی پیداوار غیر تسلی بخش تھی اور کپاس کی پیداوار میں کمی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔ اگر کپاس کے کاشتکاروں کو معیاری بیج دستیاب نہ ہوئے تو حکومت کو چار بلین ڈالر کی کپاس درآمد کرنا پڑے گی۔ ایس سی اے نے کپاس کی فصل پر تحقیق کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
(ڈان، 9 مارچ، صفحہ15)
چاول
چیئرمین رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ریپ) نے کہا ہے کہ ملک سے باسمتی چاول کی برآمد میں اضافے کے لیے ریپ سعودی عرب اورآسٹریلیا کا دورہ کررہی ہے۔ آسٹریلیا پاکستانی باسمتی چاول کے لیے ایک بڑی منڈی ثابت ہوسکتا ہے۔ اس وقت پاکستان آسٹریلیا کو سالانہ 15,000 ٹن چاول برآمد کررہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آسٹریلیوی صنعت میں سینیٹری اور سائٹو سینیٹری معیار بہت اچھے ہیں۔ اس لیے ریپ نے اپنے معیارات کو بڑھانے کے لیے کچھ آسٹریلوی فیکٹریوں کا دورہ کرکے ان سے سیکھنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 8مارچ، صفحہ3)
چینی
حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے لیے چینی کی خریداری کے لیے ٹینڈر کے اجراء کا طریقہ کار ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے ایک سمری وفاقی کابینہ کو منظوری کے لیے بھیج دی گی ہے۔ چیئرمین یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن ذوالقرنین خان کا کہنا ہے کہ خریدی جانے والی چینی کی کل مقدار میں سے 20,000 ٹن چینی جہانگیر ترین سے خریدی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”جہانگر ترین نے وزیراعظم کو آگاہ کیا تھا کہ شوگر مل مالکان عوام کے لیے 1.5 بلین روپے کا نقصان برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں“۔ جہانگیر ترین 67 روپے فی کلو جبکہ دیگر مل مالکان 70 روپے فی کلو چینی فراہم کریں گے۔ ”منڈی میں چینی کی قیمت 81 روپے فی کلو ہے تاہم ہم یہ چینی 67 روپے فی کلو حاصل کرینگے“۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 11 مارچ، صفحہ3)
ماہی گیری
کراچی کے ساحلی علاقوں میں رہنے والی آبادیوں نے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے حکام کی توجہ لاک ڈاون کی وجہ سے گزشتہ سات روز سے ماہی گیروں میں بیروزگاری، بھوک کی طرف مبذول کروائی ہے۔ ساحلی علاقے ابراہیم حیدری میں واقعہ بے نظیر بھٹو چوک پر عورتوں اور بچوں سمیت سینکڑوں افراد نے احتجاجی دھرنا دیا۔ پولیس اور نیم فوجی دستوں کی جانب سے ان کے مسائل اعلیٰ حکام تک پہنچانے کی یقین دہانی پر دھرنا ختم کردیا گیا۔ ماہی گیروں کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کے سربراہ کاکہنا ہے کہ گزشتہ سات دنوں سے ساحلی علاقوں میں آباد افراد خصوصاً ماہی گیر بے روزگار ہوگئے ہیں، اپنے خاندان کے لیے خوراک کی کمی کی وجہ سے متاثر ہورہے ہیں جس کی وجہ سے ماہی گیر سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کراچی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں اندازاً ایک ملین سے زیادہ ماہی گیر ہیں جو ساحلی علاقوں میں رہتے ہیں اور اس وقت لاک ڈاؤن کے باعث سمندر میں نہیں جاسکتے۔ ان کا واحد زریعہ روزگار ماہی گیری ہے۔
(ڈان، 30 مارچ، صفحہ14)
مرغبانی
مرغبانی صنعت سے وابستہ حکام کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ملک بھر میں ہونے والے لاک ڈاؤن سے مرغبانی کی صنعت کو کئی ملین روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ہوٹلوں اور شادیوں کی بندش سے سینکڑوں پولٹری فارمر متاثر ہوئے ہیں کیونکہ مرغی کی فروخت 50 سے بھی زیادہ کم ہوگئی ہے۔ طلب میں کمی کی وجہ سے مرغی کی قیمت میں بھی 50 فیصد کمی ہوگئی ہے۔ پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے ترجمان خلیل ستار کا کہنا ہے کہ نقصانات سے بچنے کے لیے ایسوسی ایشن نے حکومت سے بجلی کے نرخوں میں کمی اور قرضہ جات کی وصولی موخر کرنے کی درخواست کی ہے۔
(دی نیوز، 29 مارچ، صفحہ17)
غربت
کرونا وائرس کے منفی اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان کے اعلان کردہ امدادی پیکچ کے تحت کم آمدنی والے 10 ملین افراد کو چار ماہ کے لیے 12,000 روپے پر مشتمل وظیفہ فراہم کیا جائے گا۔ فنانس ڈویژن کے دستاویز کے مطابق حکومت اس پیکچ کے تحت 144 بلین روپے فراہم کرے گی۔ یہ رقم حکومت کی جانب سے پہلے سے جاری احساس پروگرام کے تحت دی جانی والی رقم کے علاوہ ہوگی۔ اس کے علاوہ وزیراعظم نے یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کے لیے 200 بلین روپے کا اعلان کیا ہے اور توقع ہے کہ یہ رقم صوبائی حکومتوں کے ذریعے ادا کی جائے گی۔ تاہم اس حوالے سے حکمت عملی اب بھی تیاری کے مراحل میں ہے۔ احساس پروگرام سے منسلک اعلی حکومتی حکام نے حکومت کو تجویز دی تھی کہ کرونا وائرس سے بری طرح متاثرہ ہونے والے غریب افراد کو ماہانہ 4,000 روپے دینے کا اعلان کیا جائے لیکن وزارت خزانہ نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے 3,000 روپے ماہانہ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔
(ڈان، 27 مارچ، صفحہ3)
نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبریں بھی ملک بھر میں چھوٹے اور بے زمین کسان مزدورں، ماہی گیروں کے لیے کرونا وائرس کے دوران بدتر ہوتے حالات کو ظاہر کررہی ہیں۔ ساحلی علاقوں کی ماہی گیر آبادیاں بھوک اور بیروزگاری سے تنگ آکر احتجاج پر مجبور ہوچکی ہیں جن کے لیے ایک ہفتہ گزرجانے کے باوجود امداد تاحال حکومتی اعلانات اور حکمت عملی کی تیاری کے بہانوں تک محدود ہے۔ یقینا ملک بھر میں سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام ہی موجودہ وبائی صورتحال میں چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں، ماہی گیروں اور دیگر شعبہ جات سے منسلک مزدوروں میں بھوک اور غربت کا ذمہ دار ہے، جس میں سرمایہ دار اور جاگیردار زمینی اور دیگر پیداوار وسائل کے ساتھ ساتھ منڈیوں پر بھی قابض ہیں۔ اس صورتحال نے ظلم و استحصال کے شکار اس اکثریتی طبقے کا غذائی تحفظ چھین کر انہیں موجودہ حالات میں بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے۔ اس ہی ظالم طبقے پر مشتمل حکومت اور پالیسی ساز چند ہی دنوں میں ہی کیمیائی کھاد اور دیگر صنعتوں کو عوامی خزانے سے اربوں روپے کی امداد دینے اور ٹیکس میں چھوٹ دینے کے لیے فوری اقدمات کرتے ہیں لیکن بات جب کسان مزدور عوام کی ہو تو یہی سرمایہ داروں کے ایجنٹ اور جاگیر دار پالیسی ساز کئی اجلاسوں کے بعد غریب کسان مزدور کو 4,000 روپے ماہانہ امداد دینے کی مخالفت پر اتر آتے ہیں۔ پاکستان کسان مزدور تحریک اور دیگر کسان دوست تنظیموں کی جدوجہد اور مطالبات یقینا آفت کی اس گھڑی میں اہم ترین ضرورت ہے۔ موجودہ وبائی صورتحال نے پی کے ایم ٹی کے اس نظریہ کو تقویت فراہم کی ہے کہ خوراک کی خودمختاری اور دیگر بنیادی ضروریات بشمول صحت و تعلیم اس گلے سڑے سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام میں ممکن نہیں۔ چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں سمیت تمام تر استحصال کے شکار عوام کی بقاء صرف و صرف پیداواری وسائل بشمول زمین کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم اور پائیدار پیداوار و کھپت کے نظام میں ہے۔